Skip to main content

ھندستان کے اندر موجود ذات پات کی تقسیم کی شروعات کیسے ھوئی؟

ھندستان کے اندر دو بڑے اور ایک دوسرے سے یکسر مختلف آبادی کے بلاک ھین جن کا رہن سہن کھانا پینا اٹھنا بیٹھنا ریتی رواج حتہ کے عبادات کے طور طریقے بھی مختلف ھین۔ ان دو گروپس کی نہ صرف ظاہری شکل و صورت  رنگ نسل ایک دوسرے سے مختلف ہے بلکہ جدید سائنسی تحقیق کے مطابق انکا ڈی این اے بھی مختلف ہے۔ ان دو مین سے ایک گروہ کو عام طور پہ ساؤتھ انڈین اور دوسرے کو نارتھ انڈین کہتے ھین۔ انڈیا کے اندر نارتھ ساؤتھ کی یہ تفریق صدیان پرانی ہے۔ مؤرخین کے مطابق ساؤتھ انڈینز اس خطے کے اصل باشندے رہے ھین جو کہ ھزارون سال سے موجودہ انڈیا کے علاقون مین رھتے آئے ھین اور یہ عام طور پہ ڈراوڈین نسل کی قومین مانی جاتی ھین۔ اسوقت ڈراوڈینز انڈیا کے وسطی اور  جنوبی علاقون مین رھتے ھین۔ اھم جو ڈراوڈین نسل کے لوگون کی ھندستانی ریاستین ھین ان مین کیرالہ ، تامل ناڈو اور کرناٹکہ سرِفہرست ہین۔ انکی زبانوں کی بناوٹ بھی نارتھ یعنی شمالی انڈیا کی زبانوں سے یکسر مختلف ھین۔ 




اس وقت بھارت کے اندر ڈراوڈین زبانیں بولنے والون کی تعداد لگ بھگ ساڑھے چوبیس کروڑ ہے۔دوسرے طرف ھندستان کے شمال مین رھنے والے اکثر لوگ آریا نسل سے تعلق رکھتے ھین جو کہ ھزارون سال قبل ایسٹرن یورپ سے لیکر وسطی ایشیا کے کئی علاقون سے ھندستان کی طرف قبائل کی صورت جنگون یا قحط سالی کی وجہ سے منتقل ھوتے رھے۔ ھجرتون کا یہ سلسلہ صدیون پہ محیط رہا۔ ھندستان آنے کے بعد تاریخ مین انکی اور ڈراویڈین نسل کے لوگون کی جنگون کے احوال بھی ملتے ھین۔ مانا جاتا ہے کہ پہ در پہ ھجرتون اور اس کے نتیجے مین پیدا ھونے والی ڈیموگرافک تبدیلیوں کے وجہ سے ڈراوڈین نسل کے لوگ نیچے کی طرف، ھندستان کے جنوب مین منتقل ھوتے رہے جس سے اوپر شمال والے حصے مین آریا نسل کے لوگون کی تعداد بڑھتی چلی گئی اور ایک نیا آبادی کا گروہ تشکیل پاتا رہا۔


آریا نسل کے لوگون کے ھندستان مین آمد کے ساتھ ساتھ کچھ ایسی چیزین ھندستان کے معاشرے مین آگئین جن کا آریا سماج کے آنے سے پہلے ھندستان مین موجودگی کا آثار نہین ملتا مثال کے طور پہ ھندو مت۔ ایک وقت تھا کہ ھندستان کا سب سے بڑا مذھب بدھ مت اور جین مت ھوا کرتا تھا۔ البتہ ایک جو دلچسپ چیز آریا سماج کے ساتھ ھندستان آئی ہے وہ ھندستان کے ھندو برادری مین موجود ذات پات کا نظام ہے۔ بھارت کی تاریخ مین گپتا ایمپائر سے پہلے کوئی ایسا ڈاکیومنٹڈ ثبوت نہین ملتا جس سے یہ حتمی طور پہ کہا جا سکے کہ اس سے پہلے کوئی ذات پات کا نظام تھا۔


ذات پات کا نظام کچھ یون ہے کہ پانج بنیادی ذات ھین، سب سے اوپر ھندو مت کے اس فلسفے کے حساب سے برھمن ھین جو کہ اعلی ذات ھین سب سے اونچے۔ یہ اصل مین پنڈت پجاری حضرات کہلائے جاتے ھین۔ دوسرے نمبر پہ جو ذات آتی ہے وہ کاشتریا کہلاتے ھین یہ اصل مین رولنگ الیٹ یا بادشاہ اور شھزادون والا طبقہ ہے جو کہ حکومت کرنے کے لیے تو بنے ھین لیکن رھنا انھون نے برھمن پجاری کے زیرِاثر ہے ھمیشہ۔ تیسرا جو طبقہ ہے وہ کہلاتا ہے وئشیا یہ اصل مین بیوہاری اور ھنرمند افراد کا طبقہ مانا جاتا ہے جن کے پان دادا کسی خاص ھنر سے یا تجارت سے وابسطہ ھون ۔ چوتھا طبقہ شودر کہلاتے ھین جن مین نوکر اور کسان مزدور آ جاتے ھین۔ البتہ ان سب کے علاوہ جو پانچواں طبقہ ہے وہ دلت یا اچھوت کہلوایا جاتا ہے۔ جو حضرات اوپر کے چار کئٹگریز مین نہین وہ اس کے اندر مانے جاتے ھین۔

 

اب مسئلہ یہ ہے اس سسٹم مین کے جو برھمن ہے یعنی مراعات یافتہ طبقہ اس کی اولاد بھی برھمن ھی ھوگی۔ مطلب وہ اھل ھو نہ ھو پیدائشی طور پہ وہ صفِ اوّل کی پوزیشن کے لیے اھل ھو جاتا ہے البتہ وھین جو نچلا اور پاک گوا طبقہ ہے یعنی شودر اور اچھوت جس کو دلت بھی کہتے ھین یہ پیدائشی طور پہ دلت ھی ھوگا ساری زندگی اچھوت ہی ھونا ہے رئنک کے اعتبار سے برھمن کے نیچے رھنا ہے۔ 

اس کا مطلب یہ ھوا کہ اس سسٹم نے اوپر کی ذات والون کو تو ھمیشہ فائدہ پہنچایا لیکن نچلا طبقہ ھمیشہ اس مین زیرِ اعتاب ھی رہا تاریخ کے ھر دور مین اور ھندستان کے اندر اسلام اور عیسائیت کے پھیلنے کے پیچھے ایک سبب یہ بھی رہا ہے کہ نچلی ذات کے لوگ اس ناانصافی کو تسلیم کرنے کی بجائے اس کو رِزِسِٹ کرت رہے ھین۔ البتہ موجودہ جدید دور مین اس تھیوری کو بیچنا چونکہ ممکن نہین رہا عوامی بیداری کے باعث اسی لیے اب یہ چیز ھندتوا اور ھندو نیشنلزم کے آڑ مین نئین پیکجنگ کی آر مین مارکیٹ مین متعارف کروائی جا رہی ہے انڈیا کے اندر۔



(The Blank Page Official)

Reach us at:

Youtube:  https://www.youtube.com/TheBlankPageOfficial

Twitter:    https://twitter.com/PageBlank

Facebook: https://www.facebook.com/TBPOfficial1/


Support us: 

Patreon :  https://www.patreon.com/theblankpageofficial



 

Comments

Popular posts from this blog

Poll: US Public Support for Israel Wanes as 68 Percent Call for Ceasefire

  TEHRAN (FNA)- Israel’s war on Gaza is upsetting many Americans who think it must follow growing demands for an immediate ceasefire, according to a new poll. The Reuters/Ipsos survey found only 32 percent of respondents said “the US should support Israel”. That is down from 41 percent from a poll conducted on October 12-13 – just days after the war broke out. About 68 percent of respondents said they agreed with the statement, “Israel should call a ceasefire and try to negotiate”. Some 39 percent supported the idea “the US should be a neutral mediator”, compared with 27 percent a month earlier. Only 4 percent of respondents said the United States should support Palestinians, while 15 percent said the US shouldn’t be involved at all in the war. While the US has been a significant Israeli ally, just 31 percent of respondents said they supported sending Israel weapons. The plunge in support fol

Increase in Demand for Bangladeshi Flags in Pakistan Following Sheikh Hasina’s Regime Change

After the fall of the pro India regime in Bangladesh, there has been a significant increase in the demand for Bangladeshi flags in Pakistan. This surge in interest can be attributed to a variety of factors that have emerged in the political landscape of the region. The changing dynamics have led to a noticeable shift in how people in Pakistan are expressing their sentiments and affiliations. As a result, the Bangladeshi flag has become a symbol of solidarity and support inside Pakistan.

US ‘Biggest Nuclear Threat’: China

  TEHRAN (Tasnim) – The United States poses the greatest danger to the world when it comes to the risks of a potential nuclear conflict, Chinese Defense Ministry spokesman Zhang Xiaogang told journalists on Friday. Beijing has accused Washington of making “irresponsible decisions” in attempts to maintain its hegemony, including through intimidating the international community with its nuclear arsenal, RT reported. The damning statement came in response to the Pentagon’s decision to upgrade US Forces Japan into a joint force headquarters under the command of a three-star officer reporting to the commander of the Indo-Pacific Command. The announcement was made by the US Defense Department in late July following the meeting of the American and Japanese defense and foreign policy chiefs. US Defense Secretary Llyod Austin hailed the development as “one of the strongest improvements in our military ties with Japan in 70 years” at that time. He also said that the two sides “held a separate