Skip to main content

سریلنکا کا بدترین معاشی بحران اور ایکانامک ھِٹ مین

 

 

سریلنکا کے اندر معاشی حالات انتہائی سنگین ھو چکے ھین۔ وھان پر اِس وقت عملاً کوئی حکومت موجود نہین، عوام سڑکون پہ نکل آئے ھین ملک بھر مین حکومت کی ناکام معاشی پالیسیز کے خلاف احتجاج عروج پہ ہے اور ایسے مین وزیرِ اعظم مھندا راجاپکسیا نے عوامی دباؤ پہ استعیفا دےدیا ہے۔ یہ بھی اطلاعات آ رہی ھین عالمی میڈیا مین کہ مشتعل ھجوم نے صدر اور وزیرِ اعظم کے گھر کو بھی آگ لگادی ہے۔ مستعمل عوام کی جانب سے حکومتی جماعت کے ذمیداران کو بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کے نشانہ بنائے جانے کی اطلاعات ہین ۔



سریلنکا کے صدر کے لیے کہا جا رہا ہے کہ وہ اِس وقت کسی دور دراز نیوی کے اڈے پہ موجود ھین۔ سریلنکا کے دیوالیہ ھونے کے بعد عوامی دباؤ اِس قدر شدید ہے کہ حکومتی جماعت کے ایک وزیر نے عوامی غصے کے پیشِ نظر خودکشی بھی کر ڈالی ہے۔ اب تک آٹھ سے زائد افراد پرتشدد مظاہروں مین مارے جا چکے ھین۔ 

سریلنکا کے غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر لگ بھگ ختم ھوچکے ھین اور ضرورتِ زندگی کی اشیاء امپورٹ کرنا بھی اب مشکل ھو چکا ہے اور یہ یاد رہے کہ چھوٹا سایہ آئلینڈ نیشن اپنی تقریباً تمام بنیادی کموڈٹیز باھر سے منگواتا ہے، پیکٹ دودھ اے لیکر آٹے تک لھاذا ایسے ملک مین زرِمبادلہ کا لگ بھگ ختم ھونا ایک انسانی المیے کو بھی جنم دے سکتا کے۔ 

 

 بیل آؤٹ پیکیج کے لیے سریلنکا اِس وقت آء ایم ایف سے مذاکرات کر تو رہا ہے لیکن اِس قسم کا کوئی پیکیج مستقبل قریب مین ملتا ھوا نظر نہین آ رہا کافی زیادہ اس مین ابھی مراحل طئہ کرنے باقی ھین۔ راجا پکسیا خاندان جس کی وہان کافی عرصے سے حکومت تھی، یہ سریلنکا کے سب سے زیادہ طاقتور سیاسی گھرانوں مین شمار ھوتے ھین اور موروثی سیاست انکی جماعت مین نظر آتی ہے کافی سارے رشتیدار اھم ترین سرکاری عھدون پہ رہے ھین انکی دورِ حکومت مین۔ اور موجودہ معاشی بحران بھی انھی کے دور مین سامنے آیا ہے جس سے کم از کم یہ تو صاف نظر آ رہا ہے کہ مستقبل قریب مین اس خاندان کا اب سریلنکا کی سیاست مین دوبارہ ابھرنا ممکن نہین۔ دو ھزار بیس سے جو حالات خراب ھونا شروع ھوئے تھے کووڈ کے آنے کی وجہ سے اور لاکڈاؤنس کی وجہ سے، سریلنکا کبھی اُن بحرانوں سے پھر نکل ہی نہین پایا۔ سریلنکا کی معیشت کا بڑا دارومدار سیاحت کی صنعت سے وابستہ ہے جو کہ کووڈ کے بعد مکمل طور پہ بیٹھ گئی تھی جس وجہ سے پھر ایک کے بعد ایک بحران معیشت کو درپیش ھوتے گئے اور راجاپکسیا سرکار اُن بحرانوں کو درست انداز مین حل کر نہین پائی۔

جب سے سریلنکا نے خود کو دیوالیہ ظاھر کیا ہے، انڈیا اور امریکی مغربی میڈیا اس کی تمام تر ذمیواری چین کے بیلٹ ائنڈ روڈز منصوبے پہ ڈال رہے ھین اور لمبے عرصے سے پروپگنڈا یہ کیا جا رہا کے کہ چین کا یہ منصوبہ اصل مین ایک قرضون کا جال ہے۔ لیکن یہ بلکل بے بنیاد باتین ھین۔ 

 

 سریلنکا کے مجموعی غیرملکی قرضے مین چین کا قرضہ صرف دس فیصد ہے،  ایسے مین کس طرح سریلنکا کے دیوالیہ ھونے کی ذمیواری چین کے اوپر ڈالی جا سکتی ہے؟ دس فیصد تو جہان کا بھی قرضہ ہے سریلنکا کے مجموعی قرضے مین پھر انکو کیسے ڈسکس نہین کیا جا رہا انڈین اور مغربی ذرائع ابلاغ مین؟ بلکہ اگر آپ غور اے دیکھین تو سریلنکا کے مجموعی قرضے مین  چائنہ اے بھی بڑی تعداد اُس قرضے کی ہے جو کہ یا تو امریکی اتحادیون نے یا پھر امریکی زیرِ اثر ادارون نے سریلنکا کو دے رکھا ہے۔ جہان کے علاوہ دو فیصد سریلنکا کے مجموعی غیر ملکی قرضے کا انڈیا سے آیا ھوا ہے اور نو فیصد ورلڈ بئنک سے ملا ھوا ہے یہ تمام امریکی کئمپ کے ملک اور ادارے مانے جاتے ھین۔ 

چند سال پہلے جان کرکنس کی ایک شھرۂ آفاق کتاب آئی تھی

Confessions of an economic hitman 

کے نام سے۔  اِس کتاب کے اندر جان پرکنس بتا رہا ہے کہ کس طرح عالمی طاقتین چھوٹے ملکون کو معاشی طور پہ غلام بناتی ھین بڑا بھترین کتاب ہے یہ اس موضوع پہ اور پڑھنے لائق ہے۔ پہلے عالمی طاقتین  ان ملکون کی اشرافیہ کو استعمال کر کے اُس ملک کو بھاری تعداد مین قرضے دلواتے ھین غیر منافع بخش منصوبوں کے لیے جو دیکھنے مین تو بظاہر خوشنما معلوم ھوتے ھین لیکن معاشی طور پہ یہ یا تو کم نفع بخش بوتے ھین قرضے اور سود کی بنسبت یا پھر بلکل نقصاندہ ھوتے ھین اور وہ منصوبے معیشت پہ بوجھ بنتے رہتے ھین اور ملکی معیشت اس طرح کے بیشمار منصوبون کے بوجھ تلے دبتی رہتی ہے۔  عام طور پہ اس طرح کے منصوبے غریب ملکون کے اندر حکمران طبقوں مین موجود اشرافیہ کو استعمال کرتے ھوئے کمیشن اور کِک بیک کا لالچ دے کر ملکون کے اندر متعارف کروائے جاتے ھین ۔ اور جب اِن ملکون کی معیشت مین پھر جان باقی نہین رھتی تو یہ ایک بیل آؤٹ پیکج آفر کرتے ھین معیشت کے رُکے ھوئے پہیے کو دوبارہ چکانے کے لیے لیکن اُس بیل آؤٹ پیکج کی شرائط  پھر انتھائی سخت قسم کی ھوتی ھین جو کہ اُن عالمی طاقتون کے انٹرنیشنل ایجنڈاز کے مطابق ھوتی ھین اور  معاشی طور پہ زندہ رہنے کے لیے پھر ان غریب ملکون مو وہ پیکیج نہ چاھتے ھوئے بھی لینے پڑتے ھین لیکن اپنی آزادی انکو پھر ایک حد تک قربان کرنے ہے پڑتی ہے۔


(The Blank Page Official)

Reach us at: 

Youtube:  https://www.youtube.com/TheBlankPageOfficial

Twitter:    https://twitter.com/PageBlank

Facebook: https://www.facebook.com/TBPOfficial1/


Support us: 

Patreon :  https://www.patreon.com/theblankpageofficial



Comments

Popular posts from this blog

Poll: US Public Support for Israel Wanes as 68 Percent Call for Ceasefire

  TEHRAN (FNA)- Israel’s war on Gaza is upsetting many Americans who think it must follow growing demands for an immediate ceasefire, according to a new poll. The Reuters/Ipsos survey found only 32 percent of respondents said “the US should support Israel”. That is down from 41 percent from a poll conducted on October 12-13 – just days after the war broke out. About 68 percent of respondents said they agreed with the statement, “Israel should call a ceasefire and try to negotiate”. Some 39 percent supported the idea “the US should be a neutral mediator”, compared with 27 percent a month earlier. Only 4 percent of respondents said the United States should support Palestinians, while 15 percent said the US shouldn’t be involved at all in the war. While the US has been a significant Israeli ally, just 31 percent of respondents said they supported sending Israel weapons. The plunge in support fol

Increase in Demand for Bangladeshi Flags in Pakistan Following Sheikh Hasina’s Regime Change

After the fall of the pro India regime in Bangladesh, there has been a significant increase in the demand for Bangladeshi flags in Pakistan. This surge in interest can be attributed to a variety of factors that have emerged in the political landscape of the region. The changing dynamics have led to a noticeable shift in how people in Pakistan are expressing their sentiments and affiliations. As a result, the Bangladeshi flag has become a symbol of solidarity and support inside Pakistan.

US ‘Biggest Nuclear Threat’: China

  TEHRAN (Tasnim) – The United States poses the greatest danger to the world when it comes to the risks of a potential nuclear conflict, Chinese Defense Ministry spokesman Zhang Xiaogang told journalists on Friday. Beijing has accused Washington of making “irresponsible decisions” in attempts to maintain its hegemony, including through intimidating the international community with its nuclear arsenal, RT reported. The damning statement came in response to the Pentagon’s decision to upgrade US Forces Japan into a joint force headquarters under the command of a three-star officer reporting to the commander of the Indo-Pacific Command. The announcement was made by the US Defense Department in late July following the meeting of the American and Japanese defense and foreign policy chiefs. US Defense Secretary Llyod Austin hailed the development as “one of the strongest improvements in our military ties with Japan in 70 years” at that time. He also said that the two sides “held a separate