امریکہ اور چائنہ کے بیچ ایک باضابطہ کولڈ وار چھڑ چکی ہے ، دونون قوتیں اس وقت اپنا اپنا ورلڈ آرڈر لانے کے لیے کوششیں کرتی ھوئی نظر بھی آ رھی ھین جس وجہ سے دنیا کے کئی ملکون کے اندر ایک انار کی اور ہیجان کی سی صورتحال ہے۔ امریکہ کسی صورت یہ نہین چاھتا کہ دنیا کے اندر چائنہ ڈومینیٹڈ نظام امریکی ورلڈ آرڈر کو ریپلیس کر پائے۔ اسی کشمکش کے ایک جھلک پاکستان کے اندر بھی غالباً نظر آ رھی ہے اور عالمی طاقتین اس وقت وھان مکمل طور پہ فعال ھین جس وجہ سے ایک سیاسی ہیجان وھان اس وقت برپا ہے۔ اپوزیشن کی ساری جماعتیں اس وقت عمران خان کی سرکار کو گھر بھیجنے کے لیے ایک نکتے پہ جمع ھو چکی ھین۔ کیا مولوی کیا لبرل ساری ھی حزبِ اختلاف کی جماعتیں اپنی سیاسی وابستگی نظریات اصول بالائے طاق رکھ کے صرف اس مدعی پہ اکٹھی ھو گئی ھین اچانک سے کہ عمران خان سے ھم نے استعیفا لینا ہے۔ لیکن کیا وہ ایسا کر پائین گے؟
عمران خان نے اپنے ستائیس مارچ والے جلسے مین یہ بڑا انکشاف کر ڈالا ہے کہ عالمی قوتیں ان کی سرکار کو تبدیل کر کے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو نئے رخ مین لانے کی کوشش کر رھی ھین۔ اب یھان سوال یہ ہے کہ اگر ان الزامات مین سچائی ہے تو کیا ملکی سلامتی کے ادارے ان عالمی سازشوں سے آگاہ نہین؟ اور اگر وہ آگاہ ھین تو کیا وہ پاکستان کے ساتھ ھونے والے اتنے بڑے واقعے پہ خاموش رھین گے؟ یہ بڑا اھم سوال ہے لیکن میرے نزدیک اسکا سادہ سا اور آسان جواب ہے۔ اس وقت اپوزیشن خود بھی کہہ رھی ہے کہ مقتدر حلقے نیوٹرل ھین۔ تو اگر ملک سے باھر سے کوئی سازش نہین ھو رھی تو ملکی سلامتی کے اداروں نے نیوٹرل ھی رہنا ہے لیکن اگر عمران خان کے بات مین سچائی ہے تو یقینی طور پہ پاکستان کے دفاعی ادارے صحیح وقت مین حرکت کرین گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے اندر جو ایک لمبے عرصے بعد کوئی ایسی سرکار نظر آئی ہے جو مختلف اشوز پہ امریکہ سمیت یورپی یونین کے اسٹانسز کو رد کر چکی ہے ، پاکستان کی خارجہ پالیسی مین اتنی بڑی تبدیلی کوئی راتون رات نہین آئی اس مین کئی سال کی محنت لگی ہے، لھٰذا یہ ممکن نہین کہ ادارے اس محنت کو اتنا آسانی سے جانے دین اور کسی ایسی سرکار مو پاکستان کے اندر پنپنے دین جس کے تانے بانے باھر سے ملتے ھون جیسا کے عمران خان نے الزام لگایا ھوا ہے۔ اُس صورت مین یہ سیاسی مسئلہ نہین بلکہ ایک قومی سلامتی کا مسئلہ بن جاتا ہے جس کو ٹھیک کرنا پھر ادارون کی ذمیواری بن جاتا ہے چاھے وہ اس کو پسند کرین یا نہ کرین۔ لھٰذا عمران خان کے الزامات کی سچائی کی صورت مین یقینن ریاست کے تمام ستون انُکے ساتھ کھڑے ھونگے اس مین کوئی دو رائے نہین۔
لیکن اگر عمران خان کی باتون مین وزن نہین اور اس بات کا کوئی معقول ثبوت بھی نہ ھو تو عمران خان ووٹ آف نو کانفیڈنس ھار کے اپوزیشن بینرز پہ بیٹھا ھوا نظر آ سکتا ہے۔ بھر حال ، کچھ یھی صورتحال ان دنون نیپال کے اندر بھی ہے۔ وھان بھی فیبروری مین امریکہ کی طرف سے اعلان شدہ پانج سو ملین ڈالر کی بھاری امداد کے بعد امریکہ اور چائنہ کے سپورٹز کے بیچ ایک بحث چھڑ گئی ہے ۔ چائنہ نے الزام لگایا ہے کہ امریکہ اصل مین نیپال کی آزاد خودمختار فارن پالیسی پہ اثر انداز ھونے کی کوشش کر رہا ہے ان پیسون کے ذریعے لیکن یہ کوشش م کامیاب نہین ھوگی۔
ایشیا امریکہ اور چائنہ کی اس کولڈ وار کے اندر مین مرکز کا روپ اختیار کرتا جا رہا ہے لھاذا یھان پر عالمی طاقتون کی جانب سے اھم ملکون پہ اپنے حمایت آفتہ سرکار ون کو لانا اپنے مخالف امیدواروں کی سرکار گرانا یہ کوئی عجب بات ہے نہین۔ اس سے پہلے بھی واشنگٹن پوسٹ کی چند سال پہلے کی ایک رہورٹ کے مطابق سویت یونین کے ساتھ جو امریکہ کی کولڈ وال تھی اس مین امریکہ نے ستر سے ذاہد ممالک مین حکومتیں گرانے کی کوشش کی تھی جس مین سے لگ بھگ دو درجن کوششیں کامیاب بھی رھین تو عجب نہین ھوگا اگر اس بار بھی امریکہ وہی چیزین دھرانا شروع کردے چائنہ کو کنٹین کرنے کے کیے۔
(The Blank Page Official)
Reach us at:
Youtube: https://www.youtube.com/TheBlankPageOfficial
Twitter: https://twitter.com/PageBlank
Facebook: https://www.facebook.com/TBPOfficial1/
Support us:
Patreon : https://www.patreon.com/theblankpageofficial
Comments
Post a Comment