دو ھزار چودہ کے انتخابات کے بعد انڈیا کے اندر بی جے پی کی سرکار آنے بعد جو وھان ایک اکھاڑ پچھاڑ کا عمل شروع ھوا ہے اسنے انڈیا کے اندر جو ایک روایتی بین المذاھب ھم آھنگی تھی م، اُسکو تو سبوتاز کیا ہی ہے ساتھ ہی ساتھ ھندتوا کے نظریے پہ قائم اس سرکار نے انڈیا کے خارجی معاملات پہ بھی منفی اثر ڈالا ہے۔ دو ھزار چودہ تک جب انڈیا کے اندر لمبا عرصہ کانگریس کے سرکار تھی تو کانگریس پارٹی کے امورِ خارجہ کا یہ کمال رہا کہ انھون نے ایک ھی وقت مین چائنہ اور پاکستان کو بھی کچھ یون مینیج کیے رکھا کے یہ دو محاذ انڈیا کے لیے کبھی مشترکہ محاذ نہین بن ہایا ساتھ ھی انھون نے امریکہ اور روس کو بھی زبردست طریقے سے مینیج کیے رکھا۔ وہ کبھی بھی امریکہ کے ساتھ ان معاملات مین آگے نہین بڑھے جو کہ روس کے لیے حساس تھے۔ اس دور تک انڈیا کے اندر امورِ خارجہ اور ملک کے داخلی معاملات دو الگ الگ مدعی رہے البتہ مودی سرکار کے آنے کے بعد ھر چیز کی طرح انڈیا کے انورِ خارجہ کو بھی ھندستان کے اندرونی سیاست کے تناظر مین دیکھا جانے لگا ۔ اس وجہ سے مودی صاحب نے ھر وہ کام کیا اپنی فارن پالیسی کے اندر جس سے انکو ھندستان کے اندر پھر سیاسی فائدہ ملتا رہا۔ مین اس کا ایک مثال دے سکتا ھون کہ جب ڈونلڈ ٹرمپ کی سرکار تھی امریکہ کے آندر تو یہی وہ وقت تھا جب انڈیا امریکہ تعلقات کے اندر پہلے سے زیادہ قربتیں نظر آئین۔ اسی ٹائم پہ انڈیا اور امریکہ آپ کو اھم نوعیت کے دفاعی معاہدے کرتے نظر آتے ھین اور اسی عرصے کے دوران انڈیا نے کچھ ایسے کام بھی کردیے جو کہ روس کے حساب سے مناسب نہین تھے جیسے کہ انڈیا کا انڈو پیسفک اور کواڈ گروپنگ مین شامل ھونا۔ یہ سارے وہ فیکٹر تھے جس وجہ سے انڈیا امریکہ تعلقات تو بڑھتے رھے اس عرصے مین لیکن انڈیا روس تعلقات مین بگاڑ آتا رہا۔
اب مودی صاحب اور ٹرمپ کے بیچ آخر ایسا کیا مشترکہ انٹرسٹ تھا جس وجہ سے اس دور مین امریکا بھارت تعلقات یون بھتر ھوے ؟ بظاہر ایسی ایک ھی چیز تھی اور وہ یہ کہ ان دونون لیڈران کے سیاسی ووٹ بینک مین ایک بڑی تعداد ایسے لوگون کی شامل رھی ہے جو کہ آپ اینٹی مسلم ھارڈ لائنر ووٹ بینک کہہ سکتے ھین۔ اور اسی مشترکہ مفاد کی خاطر آپکو ایک کَنورجَنس بھی نظر آتی ہے مودی اور ٹرمپ کی سیاسی حکمتِ عملی مین جب مودی امریکہ کے انڈین نسل شھریون کا ووٹ ٹرمپ کو دلوانے کے لیگ کمپین بھی کرتے نظر آئے نمستے ٹرمپ اور ھاؤڈیموڈی نام کی۔
لیکن اب یوکرائن والی جنگ کے بعد مسئلہ یہ پیدا ھو گیا ہے انڈیا کے لیے کہ اب ایک طرف روس ہے تو دوسری طرف امریکہ نتیجتاً اب انڈیا اس لیول پہ پہنچ چکا ہے کے س دونون مین سے کسی ایک کی نا تو سائیڈ لے سکتا ہے جیسا کے یہ دونون ملک انڈیا پہ دباؤ بنا رہے ھین ، نا انڈیا ان کی ناراضگی مول لے سکتا ہے کیون کہ ایک طرف انڈیا کا اسٹرٹیجک معاملات مین امریکہ پہ دارومدار ہے تو دوسری طرف دفاعی مصنوعات کے لیے انڈیا روس پئ دارومدار رکھتا ہے لھاذا انڈیا کے کیے فیصلہ کرنا مشکل ھو تا جا رہا ہے۔ البتہ یہ بات تو طئہ ہے کہ بلآخر انڈیا نے کوئی ایک سائیڈ مستقبل مین ضرور لینی ہے کیون کہ اس طرح نیوٹرل رہنا انڈیا کے لیے زیادہ دن ممکن نظر آ بھی نہین رہا۔ چند روز پہلے اسی حوالے سے ایک اھم ڈویلپمینٹ یہ ھوئی ہے کہ جہان کے وزیرِ اعظم انڈیا آئے اور بیالیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کردیا انڈیا کے اندر لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک طرح سے دھمکی دےدی کہ انڈیا کو روس کے خلاف اسٹانس لینا پڑیگا یوکرائن معاملے پہ اور یہ یاد رہے کہ جہان امریکہ کا قریبی اتحادی ہے۔ تو آنے والے عرصے مین انڈیا کے لیے روس اور امریکہ کے درمیان غیر جانبدار رہنا نمک نظر آ نہین رہا موجودہ حالات کو دیکھتے ھوئے لھاذا یہ دیکھنا دلچسپ ھوگا کہ انٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
(The Blank Page Official)
Reach us at:
Youtube: https://www.youtube.com/TheBlankPageOfficial
Twitter: https://twitter.com/PageBlank
Facebook: https://www.facebook.com/TBPOfficial1/
Support us:
Patreon : https://www.patreon.com/theblankpageofficial
Comments
Post a Comment