یوکرائن والے کرائسز جب شروع ھوئے تھے تو پوری دنیا اِس کے جیوپولیٹیکل پہلو پہ بات کر رہی تھی۔ لیکن اس جنگ کا ایک مذھبی پہلو بھی ہے جس پہ کم لوگ بات کر رہے تھے۔یورپی یونین اور نیٹو اتحاد مین جو غالب ممالک ھین وہ اکثر کیتھولک عیسائیت کا نظریا رکھنے والے ممالک ھین۔ جب کے روس اور مشرقی یورپ کے اندر جو ممالک ھین جن مین سے بیشتر نیٹو اتحاد مین بھی نہین یہ سارے آرتھوڈوکس عیسائیت کا نظریا رکھنے والے ممالک ھین۔ اور یہ اھم بات ہے کہ کیتھولک عیسائیت اور آرتھوڈوکس عیسائیت کے درمیان صدیون سے ایک تضاد پایا جاتا رہا ہے۔
ارتھوڈوکس عیسائیت کے مذھبی پیشوائون کو ہتریاکس کہتے ھین اور پتریاکس کوئی ایک نہین ھوتا آرتھوڈوکس عیسائیت مین لیکن کیتھولک عیسائیت کا مذھبی پیشوا پوپ ھوتا ہے اور پوپ ایک ھی ھوتا ہے۔ روس کے اندر جو آرتھوڈوکس عیسائیت کے پتریاکس ھین وہ کھل کے اس جنگ مین روس کی حمایت کرتے نظر آئے کہ پیوٹن جو کچھ کر رہا ہے بلکل ٹھیک کر رہا ہے۔ یھان غور طلب بات یہ ہے کہ روس کی طرح یوکرائن بھی آرتھوڈوکس عیسائیت کا مرکز رہا ہے اور یوکرائن کا جو مرکزی چرچ رہا ہے وہ ماسکو کے مرکزی چرچ کے نیچے رہا ہے تاریخی اعتبار سے اور یہ جو موجودہ یوکرائن کا علاقہ ہے یہ تاریخی اعتبار سے روسی سلطنت کا ہی حصہ رہا ہے البتہ پھر سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد یہ ایک الگ ملک بنا۔ اس کے اچھے تعلقات رہے ھین روس اے لیکن جب سے زیلنسکی صاحب یوکرائن کے صدر بنے روس اورُیوکرائن کے تعلقات مین گراوٹ واضح طور پہ نظر آئی اور زیلنسکی کا جھکاؤ مغرب اور امریکا و نیٹو کی طرف زیادہ نظر آیا جھان سے ان کے تلخ تعلقات ھوتے گئے روس کے ساتھ۔
پھر دو ھزار انیس کے اندر ایک تاریخی واقعہ یہ پیش آیا کہ وہ جو یوکرائن کا مرکزی چرچ تھا جو کہ ماسکو کے مرکزی چرچ کے نیچے آتا تھا اِسکو آزاد کردیا گیا۔ یہ کرنے سے مقصد نیٹو اور امریکہ کا یہ تھا کہ یوکرائن کے لوگون کی روس کے ساتھ جو تاریخی مذھبی سماجی وابستگی رہی ہے اُسکو ختم کیا جا سکے۔یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ آرتھوڈوکس عیسائیت کا مرکز رہنے والے یوکرائن کا صدر لگایا جاتا ہے ایک یھودی کو۔ زیلنسکی صاحب جو کہ یوکرائن کے صدر لگے یہ یھودی مذھب سے تعلق رکھتے ھین اور بڑے ڈرامائی انداز مین انکو سیاست مین انٹری دلوائی جاتی ہے۔ وہ یون کہ یہ سیاست مین آنے سے پہلے یوکرائن کے مشہور کامیڈی ایکٹر ھوا کرتے تھے اور انکا ایک ڈرامہ آتا تھا مسٹر پریزیڈنٹ نام کااُس مزاحیہ ڈرامے مین یہ ملک کے صدر تھے۔ یہ ڈرامہ اس قدر کامیاب ھوا کہ اُس مشھوری کو استعمال کرتے ھوئے زیلنسکی نے اُس ڈرامے کے نام پہ ھی ایک سیاسی پارٹی بنائی، الیکشن لڑےاور حقیقتاً صدر بن گئے۔ اس ڈرامائی ترقی پہ ہے اِن کے ناقدین کہتے ھین کہ دراصل زیلنسکی کو اوپر لانے مین امریکہ کا ھاتھ تھا تا کہ یوکرائن کے اندر روس مخالف سرکار بنائی جا سکے۔
البتہ اب اس جنگ کے بعد روس کے اندر جو پتریاکس ھین وہ یہ بحث کرنے لگے ھین کہ ھم سے جو یوکرائن کا کا چرچ الگ کردیا گیا تھا اسکو دوبارہ ماسکو کے چرچ کے نیچے لانا چاھیےاور زبردستی جو تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی دو ھزار انیس مین اس کی تصحیح کرنے کا وقت آ پہنچا ہے۔کانگ کی اب تک کی صورتحال یہ ہے کی ناردرن یوکرائن یعنی دارالحکومت کیوِ کا جو علاقہ ہے یہان تک روس حملے کم کرنے کے لیے راضی ھو چکا ہے جو کہ جنگ بندی کی پہلی نشانی سمجھی جا رہی ہے اور اھم بات یہ ہے کہ ترکی اس جنگ کے اندر سب سے بڑا رول پلے کرتا ھوا نظر آ رہا ہے۔زیلنسکی صاحب اس وقت روس کی وہ شرائط مان چکے ھین کہ یوکرائن آئندہ کسی صورت نیٹو یا امریکا کی طرف نہین جائے گا بلکہ کم از کم نیوٹرل لائنز رکھے گا اپنی خارجہ پالیسی کی اور اس سے محسوس یھی ھو رہا ہے کہ گراؤنڈ پہ حالات روس کے حق مین ھین اسی لیے پیوٹن اپنی شرائط منوانے مین کامیاب ھو رہا ہے۔
(The Blank Page Official)
Reach us at:
Youtube: https://www.youtube.com/TheBlankPageOfficial
Twitter: https://twitter.com/PageBlank
Facebook: https://www.facebook.com/TBPOfficial1/
Support us:
Patreon : https://www.patreon.com/theblankpageofficial
Comments
Post a Comment